علی اعجاز
اس مضمون کا بیشتر یا بڑا حصہ ایک ہی جگہ سے ماخوذ ہے۔ |
علی اعجاز | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 1941ء قلعہ گجر سنگھ |
تاریخ وفات | 18 دسمبر 2018ء (76–77 سال)[1] |
وجہ وفات | دورۂ قلب |
طرز وفات | طبعی موت |
عملی زندگی | |
پیشہ | اداکار [2]، مزاحیہ اداکار |
پیشہ ورانہ زبان | اردو ، پنجابی ، انگریزی |
کارہائے نمایاں | مفت بر ، دادا استاد |
اعزازات | |
IMDB پر صفحات | |
درستی - ترمیم |
علی اعجاز پیدائش:1941ء لاہور) میں پیدا ہوئے۔ قدرت نے ان کے لیے شوبز میں کام کرنا لکھا تھا، یہی وجہ ہے کہ زمانہ طالب علمی سے فراغت کے بعد وہ بطور بینکر اپنے کیریئر کی شروعات کرتے ہیں، لیکن کچھ عرصے میں اس کام سے ان کا دل اُچاٹ ہوجاتا ہے۔ وجہ یہی تھی کہ وہ ایک اداکار کی حیثیت سے زندگی بسر کرنا چاہتے تھے۔ یہ خیال انھیں اس لیے آیا کیونکہ پاکستانی فلمی صنعت کے معروف مزاحیہ اداکار منور ظریف ان کے بچپن کے دوست تھے۔ منور ظریف اور ان کے بڑے بھائی ظریف، دونوں فلمی صنعت میں اپنی اداکاری کا لوہا منوا چکے تھے، علی اعجاز چونکہ منور ظریف کے گہرے دوست تھے، یہی دوستی ان کے اداکار بننے کی پہلی وجہ ثابت ہوئی۔ یہ الگ بات ہے، زندگی نے دونوں کو ایک ساتھ کام کرنے کا موقع نہ دیا لیکن یہ اعزاز بھی صرف علی اعجاز کے حصے میں ہی آیا کہ جب منور ظریف کا انتقال ہوا تو فلمی صنعت میں ان کے خلا کو پُر کرنے کے لیے یہی دوست آگے آیا اور اپنے کام سے دوستی کا دم بھرا۔
معلومات زندگی
[ترمیم]انھوں نے فنی کیریئر کی شروعات ریڈیو پاکستان لاہور سے کی۔ 60ء کی دہائی میں اپنی آواز کے ذریعے اداکاری کی دنیا میں قدم رکھا، یہی وہ زمانہ ہے جب لاہور میں اسٹیج تھیٹر بھی مقبولیت کی منازل طے کر رہا تھا، اس لیے خود کو اسٹیج کے لیے بھی وقف کیا۔ الحمرا آرٹس کونسل کے اسٹیج پر ہونے والے ڈراموں کا لازمی حصہ بنے۔ ان دونوں میڈیم کے لیے کافی عرصے تک کام کرتے رہے مگر انھیں بطور اداکار زیادہ کامیابی حاصل نہ ہو سکی، لیکن یہ دل برداشتہ نہ ہوئے اور محنت جاری رکھی۔ ریڈیو کے مائیکروفون سے اپنی آواز کے ذریعے سامعین کے دلوں کو تسخیر کیا اور تھیٹر کے ڈرامے سے حاضرین کے دل موہ لینے کی جدوجہد میں کامیابی کی دیوی ذرا دیر سے ان پر مہربان ہوئی اور ابھی ان کو مزید کئی مراحل طے کرنے تھے۔ قسمت ایک کے بعد دوسرا موقع انہی فراہم کر رہی تھی، انھوں نے زندگی میں کسی بھی موڑ پر ہمت نہ ہاری اور آخرکار یہ اپنی جدوجہد میں کامیاب ہوئے۔ پاکستان ٹیلی وژن کی نشریات لاہور سے شروع ہوئیں، تو اس میں کام کرنے کے لیے ریڈیو اور تھیٹر کے نمایاں لوگ آگے آئے، انہی میں سے ایک علی اعجاز بھی تھے۔ 1964ء میں اطہر شاہ خان جیدی کے لکھے ہوئے ڈرامے ’لاکھوں میں تین‘ میں 3 مرکزی کرداروں میں سے ایک کردار نبھایا اور یوں پہلی مرتبہ عوامی شہرت کے دروازے ان پر پوری طرح کھل سکے۔ اس ڈرامے میں ان کا تکیہ کلام ’ایوری باڈی کو چائے کی صلح مارتا ہے کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔ یہ تکیہ کلام ہر خاص و عام میں زبان زد عام ہوا۔ یہی وہ دروازہ تھا، جہاں سے گذر کر انھیں فلم کی دنیا میں بھی داخل ہونا تھا۔ اس ڈرامے کی شہرت فلمی نگری میں پہنچی تو اُس وقت کے معروف اور مصروف ترین ہدایت کار شباب کیرانوی نے علی اعجاز کی اداکاری کے حقیقی جوہر محسوس کیے۔ رفیع خاور عرف ننھا کے ذریعے علی اعجاز کو ملاقات کا پیغام بھیجا۔ اس ملاقات میں ریڈیو، تھیٹر، ٹیلی وژن کے شعبوں میں اپنے فن کا مظاہرہ کرنے والے علی اعجاز کو فلم میں کام کرنے کی پیشکش ہوئی، جس کو انھوں نے قبول کر لیا۔ اس وقت کوئی نہیں جانتا تھا، منور ظریف کے بچپن کا دوست، ذاتی حیثیت میں ایک شاندار اداکار کے طور پر اپنا نام پیدا کرے گا اور اس کو پیغام پہنچانے والا فنکار ننھا ہی وہ اداکار ہوگا جس کے ساتھ اس کی جوڑی بنے گی، وہ دونوں مقبولیت کی بلندیوں کو چھولیں گے۔ قسمت ان کے لیے ایک ایک کرکے یہ تمام فیصلے کر رہی تھی۔
فلمی سفر
[ترمیم]علی اعجاز کی زندگی میں 60ء کی دہائی بہت اہم تھی، وہ نوجوان تھے، خواب دیکھتے تھے، وہ خود کو کسی میز کرسی پر بیٹھ کر فائلوں میں ضایع کرنے کی بجائے زندگی کی شطرنج پر اپنی مرضی کی چال چلنا چاہتے تھے، جس میں وہ کامیاب ہوئے۔ 1967ء میں اپنے کیریئر کی پہلی فلم ’انسانیت‘ میں اداکاری کی، جس کے ہدایت کار شباب کیرانوی تھے، اس فلم میں پاکستان کے تمام نمایاں اداکار کام کر رہے تھے، جن میں زیبا، وحید مراد، سلطان راہی، سلمیٰ ممتاز، فردوس، طارق عزیز، ننھا اور دیگر شامل تھے۔ اس فلم میں ان کا کردار پٹیالہ سے تعلق رکھنے والے تاجر کا تھا، اس کردار میں انھوں نے اتنی جان ڈال دی کہ سیٹ پر موجود تمام افراد ان سے اسی انداز میں بات کرنے لگے تھے۔ یہی وہ فلم ہے، جس میں انھوں نے ایک مزاحیہ گیت میں احمد رشدی اور آئرین پروین کے ساتھ اپنی آواز کا جادو بھی جگایا لیکن یہ ان کے پورے کیرئیر کا ایک ہی گیت ہے۔ اس فلم کے ذریعے وہ فلم نگری کے شب وروزسے بھی واقف رہنے لگے۔ وہ ابھی تک یہ پوری مقبولیت نہ سمیٹ سکے تھے۔ فلم اور ٹیلی وژن ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔ معروف صحافی عارف وقار کے لکھے ہوئے ایک ڈرامے ’دبئی چلو‘ کو جب حد درجہ شہرت مل گئی تو اسی خیال کو لے کر فلم بنائی گئی، جس میں علی اعجاز نے مرکزی کردار نبھایا، اس فلم کی مقبولیت سے ان کی شہرت کو پَر لگ گئے۔ 1979ء میں یہ فلم ریلیز ہوئی جس میں اس وقت کے بہت اہم اداکاروں نے کام کیا، جن میں ممتاز، دردانہ رحمان، اقبال حسن، اسلم پرویز، نغمہ، علاؤالدین، قوی اور ننھا شامل تھے۔ یہاں سے ان کا اصل فلمی کیریئر شروع ہوتا ہے۔ ان کی مزاحیہ جوڑی معروف اداکار ننھا کے ساتھ مقبول ہوئی، جبکہ بطور ہیروئن ممتاز کا نام ان کے ساتھ وابستہ ہوا، پھر ان دونوں جوڑیوں نے 80ء کی دہائی میں پاکستانی فلمی صنعت میں راج کیا اور بے پناہ مقبولیت حاصل کی۔ ’سالا صاحب‘ جیسی فلم اس حسین دور کی یادگار ہے جس کے نقش فلم بینوں کے دلوں پر مدتوں رہیں گے۔
فلمیں
[ترمیم]علی اعجاز نے تقریباً 106 میں فلموں میں کام کیا، جن میں پنجابی فلموں کی تعداد 84 ہے جبکہ 22 اردو فلمیں تھیں۔ ان کے حصے میں ایک پشتو فلم بھی آئی، جس کا نام ’خانو دادا‘ تھا۔ ان کی چند نمایاں اردو اور پنجابی فلموں کی فہرست درج ذیل ہے۔
- انسانیت (1967) (پہلی فلم)[3]
- دلبر جانی (1969)
- یملہ جٹ (1969)
- سیئاں (1970)
- ایف بی آئی آپریشن پاکستان (1971)[4]
- دل اور دنیا (1971)
- جی او جٹا (1971)
- سجن دشمن (1972)
- نظم (1972)
- لیلی مجنوں (1973)
- جوگی (1975)
- وحشی جٹ (1975)[5]
- ہتھ کڑی (1975)
- وارنٹ (1976)
- دبئی چلو (1979)[3]
- آپ سے کیا پردہ (1979)
- سورا تے جوائی (1980)[4]
- چاچا بھتیجا (1981)
- مولا جٹ تے نوری نتھ (1981)[4]
- دوستانہ (1982)
- مرزا جٹ (1982)
- صاحب جی (1983)[4]
- سسرال چلو (1983)
- سمندر پر (1983)
- سونا چاندی (1983)
- عشق پیچا (1984)
- جوڑا (1986)[4]
- چور مچائے شور (1996)[5]
وہ یہ بھی چاہتے تھے کہ پاکستانی سینما میں کمرشل کے علاوہ آرٹ فلمیں بھی بنیں، اس کے لیے ہمیشہ کوشاں بھی رہے۔ اس سلسلے میں معروف ہدایت کار سید نور ان سے رابطے میں تھے، دونوں کے ملاپ سے ایک فلم بننے کا معاملہ بھی طے ہوا تھا مگر زندگی نے انھیں مہلت نہ دی۔ وہ یہ بھی سوچتے تھے کہ وہ فلمی ہیرو نہیں ہیں، مگر قسمت نے انھیں ہیرو بھی بنا دیا لیکن میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ وہ اداکارہ ممتاز کے ساتھ کیے گئے کام کی وجہ سے پنجابی سینما کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ اور علی اعجاز نے فلمی رومانوی جوڑی کی جو تصویر پیش کی، وہ آج بھی دیکھنے میں حسین اور جمالیات سے مزین ہے۔ فلم سالا صاحب کے گانے ’میں تے میرا دلبر جانی‘ اور ’وے اک تیرا پیار مینوں ملیا‘ ان دونوں پر فلمائے گئے۔ یہ مقبول گانے بھی دیکھنے اور سننے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی فنی تازگی آج بھی برقرار ہے۔
اعزازات
[ترمیم]علی اعجاز نے مزاحیہ اداکاری کے علاوہ سنجیدہ کرداروں میں بھی اپنے آپ کو منوایا۔ حکومت پاکستان نے انھیں 14 اگست 1993ء کو صدارتی تمغائے حسن کارکردگی عطا کیا ۔
وفات
[ترمیم]علی اعجاز 77 سال کی عمر میں 18 دسمبر 2018ء کی صبح لاہور میں دورہ قلب کے باعث انتقال کرگئے۔[6][7]
حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ https://historygreatest.com/ali-ejaz-actor
- ↑ جی این ڈی آئی ڈی: https://d-nb.info/gnd/1061717682 — اخذ شدہ بتاریخ: 26 جون 2020
- ^ ا ب Profile of actor Ali Ejaz on pakmag.net website، Retrieved 24 جولائی 2018
- ^ ا ب پ ت ٹ Filmography of actor Ali Ejaz on Complete Index To World Film (CITWF) website، Retrieved 24 جولائی 2018
- ^ ا ب
- ↑ https://www.dawnnews.tv/news/1093647/
- ↑ https://www.nawaiwaqt.com.pk/18-Dec-2018/957464
- علی اعجاز آئی ایم ڈی بی پر
- علی اعجاز مووی ڈیٹابیس ” پاکستان فلم میگزین “ ◄ پر
- 1941ء کی پیدائشیں
- 2018ء کی وفیات
- 18 دسمبر کی وفیات
- نگار اعزاز جیتنے والی شخصیات
- بیسویں صدی کے پاکستانی مرد اداکار
- پاکستانی مرد فلمی اداکار
- پاکستانی مزاحیہ اداکار
- لاہوری شخصیات
- تمغائے حسن کارکردگی وصول کنندگان
- پنجابی شخصیات
- 1942ء کی پیدائشیں
- لاہور کے مرد اداکار
- اکیسویں صدی کے پاکستانی اداکار
- لاہور کے اداکار
- اردو سنیما میں اداکار
- پاکستانی ٹیلی ویژن اداکار
- اکیسویں صدی کے پاکستانی مرد اداکار